نوٹ :
یہ تحریر بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے انفارمیشن اینڈ کلچرل سیکرٹری قاضی داد محمد ریحان نے لکھی ہے۔ اس میں علامات کے تاریخی، فلسفیانہ، سائنسی، ثقافتی اور فنی پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ تحریر ادارے کے رکارڈ کا حصہ ہے تاکہ اس علامت ( بلوچ شہدا کی علامت ) کو ہمیشہ درست تناظر میں سمجھا جاسکے۔
اس نشان کو بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم) کی بلوچ شہداء میموریل کونسل (شھمیرانی تاک ) نے ’’ 30 اکتوبر 2025 ‘‘ کو بلوچ شہداء کی باضابطہ علامت کے طور پر منتخب کیا ہے۔اس کے انتخاب سے قبل پارٹی کے اندر اور باہر وسیع پیمانے پر آرا طلب کی گئی تاکہ اسے ایک متفقہ علامت میں ڈھالا جاسکے۔ یہ تحریر اس دوران ہونے والے مباحثوں اور سوالات کا احاطہ کرتی ہے۔
دیگر زبانیں :
انگریزی :
https://martyrs.thebnm.org/?p=8627
فارسی :
 https://martyrs.thebnm.org/?p=8661
پی ڈی ایف ۔ ڈاؤن لوڈ :
بلوچ قدیم شہداء کی قبور کی منفرد طرز تعمیر :

بلوچ گلزمین کے مختلف علاقوں — جیسے گوادر، کچھی، میرجاوہ، اور توتا چوکُنڈی (کراچی) — متعدد بلوچ سرمچاروں کی قبریں موجود ہیں جنھوں نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف اپنی سرزمین کے دفاع میں جانیں قربان کیں۔
یہ بات مشاہدہ کی گئی ہے کہ ان شہداء کی قبریں عام قبروں سے مختلف ہیں۔حالانکہ بعض مقامات پر ایک ہی زمانے کے دیگر افراد بھی مدفون ہیں جن کی قبریں عام قبروں جیسی ہیں ۔ لیکن شہداء کی قبریں تہہ در تہہ سیڑھیوں کی شکل میں اُبھری ہوئی ہیں، یہ ایک قومی اعزاز اور اعتراف ہے کہ یہاں دفن ہونے والے عام لوگ نہیں ہیں۔
بلوچستان میں، شہداء کی قبروں پر اکثر ایک پھول کا نقش کندہ کیا جاتا تھا، جو عزت ، احترام اور یادگار کی علامت تھا۔ وسیع تر بلوچ گلزمین میں بہت سے علاقوں میں یہ نقوش اور قبروں کی طرز تعمیر حیرت انگیز طور پر یکساں رہے ہیں۔اس پھول کو دائرے کی شکل میں بنایا جاتا تھا اور یہ محض خوبصورتی کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ زندگی سے متعلق قدیم صوفیانہ اور فلسفیانہ خیالات کو پیش کرتا ہے۔
دائروں اور علامات کا ایک خاص ترکیب میں دہرائے جانا ’ توازن ، ہم آہنگی اور کائناتی نظام ‘ کا اظہارہے۔ علامات کی زبان میں بیان کہ جو خاص شخص ، خاص مقصد، اپنی زمین ،قوم اور تشخص کی دفاع میں اپنی جان قربان کر چکا ہے وہ کسی دوسری شکل میں واپس لوٹے گا ، وہ مرا نہیں بلکہ امر ہوچکا ہے ۔اس سے یہ صوفیانہ تصور جھلکتا ہے کہ زندگی جو بظاہر ختم ہوتی ہے لیکن درحقیقت وہ مختلف شکلوں میں موجود ہے یا اس کا دوبارہ ظہور ہوگا۔ اس سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ ان نقوش کے کاریگر محض فن تعمیر سے واقف نہیں تھے بلکہ وہ اپنے زمانے کے روحانی علوم پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ بلوچستان میں دیر تک یہ روایت رہی ہے کہ قبروں کے کتبے پڑھے لکھے لوگ لکھا کرتے تھے۔ اپنے بزرگوں کی قبروں کے کتبے تحریر کرنا قابل فخر اور سعادت کا باعث سمجھا جاتا تھا۔ مند کے قبرستان میں جہاں شہید واجہ غلام محمد بلوچ اور ملا فاضل کے مقبرے ہیں ، وہاں کئی پرانی قبروں پر ملافاضل کے بھائی اور نامور شاعر ملاقاسم کے ہاتھ سے لکھے کتبے موجود ہیں جن پر ان کا نام بطور کاتب درج ہے۔
اسی طرح میرے پردادا کی قبر کا کتبہ میرے دادا ’ قاضی داد محمد ریحان ‘ نے لکھا ہے ، جس پر انھوں نے اپنا نام بھی بطور کاتب درج کیا ہے۔ گوادر کے پرانے قبرستان میں امیر کمبر کے مقبرے پر فارسی زبان میں لکھا ہے کہ : یہ مقبرہ ھوت میران نے ملا امیر کمبر کے لیے شعبان ، بروز پیر 1140 ھجری قمری میں ، شئے بلال کی بادشاہت کے اختتام پر تعمیر کروایا۔
(فارسی تحریر : بنا کرد این مقام را هوت میران برای ملا امیر قنبر بتاریخ شهر شعبان، روز دوشنبه، سنه یکهزار و یکصد و چهل، در اتمام بادشاهی شئے بلال۔)
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اپنے بزرگوں اور قابل احترام شخصیات کے مقبرے اور قبور تعمیر کروانا بلوچ معاشرے میں ایک باعزت اور سعادت کا عمل سمجھا جاتا تھا اس لیے اس پر برملا فخر کا اظہار کیا جاتا تھا۔
بعید نہیں کہ یہ روایت چوکنڈی قبور کی تعمیر سے چلی آ رہی ہو ، اس زمانے بھی یہ کام صاحب علم سنگتراش کرتے تھے۔ بعض علاقوں میں آبادی سے دور الگ تھلگ اکا دکا قبروں پر بھی اسی طرح کے نقوش ہیں ، یعنی کسی زمانے میں سنگ نگاری کا فن عام رہا ہوگا۔
گوکہ یہ قبریں بعد از اسلام کی ہیں جب بلوچوں نے بتتدریج سناتن دھرم ( ہندوازم ) ، زرتشتی اور بدھ ازم کو ترک کرکے اسلام اختیار کیا۔اس خطے میں اسلامی روایات کی بلوچ سے زیادہ پرانا امین کوئی نہیں ہوسکتا کیونکہ بلوچ اس خطے کی تاریخ میں وہ پہلی قوم ہے جس نے اسلام کے تیسرے خلیفہ عمر کے دور میں اندرونی اختلافات کی بنیاد پر سردار شاہ سوار کی سربراہی میں ساسانی سلطنت کے خلاف عرب حملہ آوروں سے اتحاد کیا ۔عرب جو عربستان کو زیر کرنے کے فوری بعد ایران کی پرشکوہ سلطنت کی طرف متوجہ ہوئے۔یعنی عربوں کے بعد اسلام قبول کرنے والے اوائلی اقوام میں بلوچ شامل تھے۔
سچائی یہ ہے کہ ان نقوش کا ’ اسلامی نظریات و روایات سے تعلق نہیں ‘ ۔ عرب ثقافت میں قبریں نہایت سادہ اور غیر مزین بنائے جاتے تھے ، قبل از اسلام بھی ۔ بعد از اسلام اس بات پر زور دیا گیا کہ قبریں نہایت سادہ طرز میں تعمیر کی جائیں یہاں تک کہ ان پر کوئی کتبہ بھی نہیں لگایا جاتا تھا ۔ عربوں کی زیادہ تر قبریں زمین کے اندر کھودی گئی گڑھیاں تھیں، یا سادہ پتھروں یا مٹی کے ڈھیر سے بنائی جاتی تھیں۔قبروں کے نشان کے لیے پتھر لگائے جاتے تھے ، علامات انتہائی سادہ قبائلی یا کھجور کے پتوں کے ہوتے تھے۔
اس لیے یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے خطے میں قبروں کی طرز تعمیر اور ان پر کیا جانے والا نقش و نگار مقامی قدیم ثقافت سے جڑا ہوا ہے نہ کہ اس کا نام نہاد اسلامی فن تعمیر سے۔ بلکہ بعض قبروں میں اسلامی ممانعت کے باوجود جانوروں کے اشکال جیسا کہ جنگجوؤں کی قبروں پر گھوڑے اور گھڑسواروں کی تصاویر بھی کندہ کی جاتی تھیں ، لیکن مجموعی طور پر اس میں احتیاط بھی نظر آتا ہے۔
بلوچستان کی تہہ دار قبروں میں میرجاوہ کے گاؤں روپس میں واقع ھفتاد ملا کے نام سے مشہور قبرستان کی قبریں اپنی طرز تعمیر میں کافی نمایاں اور معروف ہیں۔ ان کی قدامت ہزار سال قبل بتائی جاتی ہے۔ انھیں بھی نام نہاد اسلامی طرز تعمیر کا نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ان شہدا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مغل حملہ آوروں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔
حسب دستور بلوچوں کے ان تاریخی قبور میں مدفون لوگوں کی تاریخ کو بھی مسخ اور متازع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم صرف یہ سچائی جانتے ہیں کہ ان کی درست تاریخ اور ان لوگوں کی انفرادی شناخت کے بارے میں تاحال معلوم نہیں۔ متضاد دعوے ہیں جن پر اعتبار کرنا ممکن نہیں۔ سوائے اس بات کے چونکہ اس طرز تعمیر کی قبریں بلوچسان کے مغرب سے لے کر مشرق تک ہر جگہ موجود ہیں ، اس لیے غالب امکان ہے کہ یہ قبور بھی بلوچوں کی ہیں۔ ھفتاد ملا کے نام سے معروف اس قبرستان کی تمام قبریں ایک جیسی نہیں اس سے بھی اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ منفرد قبریں مدفون شخصیات کے قابل ذکر اور قابل احترام کردار کی وجہ سے بنائی گئی ہیں ، ان قبور کی طرز تعمیر سے ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی عظمت کو تسلیم کیا گیا ہے۔
ھفتاد ملا کے نام سے معروف قبروں پر ہمیں کوئی نشان نہیں ملتا ، قبریں باقی جگہوں کی قبروں سے منفرد بھی ہیں مگر ان کا سیڑھیوں کی طرح درجہ دار ہونا اور قبر کے اوپری سطح کی مخروطی شکل وہی ہے جسے ہم نے بلوچستان میں شہداء کی قبروں کی ایک خاص علامت کے طور پر دریافت کیا۔
پھول اور شہدا کی علامت :

دنیا بھر میں شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پھول ایک مشترک علامت ہے ہر خطے میں مقامی طور پر پیدا ہونے والے پھول کو شہدا کی علامت یا اس کے احترام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کینیڈا ، شمالی امریکا ، برطانیہ اور یورپی ممالک میں شہدا کی علامت کے طور پر سرخ خشخاش (Popy) کے پھول کا استعمال کیا جاتا ہے ، بالخصوص دوسری جنگ عظیم میں مرنے والوں کی یاد میں ہونے والی تقریبات میں یہ علامت بڑے پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے۔جرمنی اور جاپان میں سفید گل داؤدی ، ایران میں گل لالہ ، ترکی اور بھارت وغیرہ میں گلاب اور دیگر پھول استعمال کیے جاتے ہیں یہاں تک کہ بعض ثقافتوں میں گھوبی کا پھول بھی شہدا کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
بلوچستان میں عام طور پر پایا جانے والا پھول ’ جور ‘ ( Olander ) ہے جسے فارسی میں خرزھرہ کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں یہ پھول اپنی خوبصورتی ، سدابہار اور سخت جان ہونے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ہیروشیما میں ایٹمی حملے کے بعد سب سے پہلے تابکاری اثرات کو شکست دے کر اگنے والے اس پھول کو امید کی علامت قرار دیا گیا۔ سمندری طوفان اور سیلاب کی وجہ سے زمین جب اپنی روئیدگی کھو دیتی ہے تو اس پودے کو اس کی روئیدگی کی بحالی کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن بلوچستان کے مخصوص ثقافتی پس منظر کی وجہ سے اس مقامی پھول کے تزئین اور آرائش میں استعمال کی روایت نہیں۔جبکہ جدید دور میں آپ کو یہ پھول دنیا کے سرد و گرم مختلف علاقوں میں گھروں کے آنگن اور سڑکوں پر بکثرت نظر آتا ہے اور اسے نرسریوں اور گملوں میں بھی اگایا جاتا ہے۔
نازبو (ریحان) اور یاسمین بھی بلوچستان کے مقامی پھولوں میں شامل ہیں جبکہ بعض سردمقامات پر اپنے موسم میں گل لالہ بھی اگتا ہے۔ بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ گل لالہ بلوچستان میں عام طور پر پایا جانے والا ایک پھول ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنی طرف سے کلی جیسے نظر آنے والے اس خوبصورت پھول کو بلوچستان کا قومی پھول بھی قرار دے رکھا ہے جو مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے اکثریتی علاقوں کے لوگ اس پھول سے واقف ہی نہیں۔ اسی طرح ہر علاقے میں خود رو پھول موجود ہیں جو اپنے موسم میں اگتے اور کھلتے ہیں لیکن ان پر توجہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ بلوچ شہری زندگی کا حصہ نہ بن سکے۔ناز بو اور یاسمین دو ہی ایسے قدیم پھول ہیں جو بلوچستان میں گھروں کے آنگن میں اگائے جاتے ہیں اور لوگ گلاب کے پھول کے نام سے بھی واقف ہیں جو شاعری میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ساحلی علاقوں میں ناز بو میتوں ، قبروں اور فاتحہ خوانی میں استعمال کیا جاتا ہے ، ناز بو کے پھول چھوٹے ہوتے ہیں، اس کے پھول سے زیادہ پتے خوشبودار ہیں جنھیں بطورسلاد بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
بلوچ شاعری میں گلاب اور یاسمین کے ساتھ انار ( انار کلی ) اور جور کے پھول کو بھی خوبصورتی اور رومانوی خیالات کے اظہار کے لیے بکثرت استعمال کیا گیاہے۔جبکہ جور کا لفظ منفی معنوں میں بھی عام کہاوت کا حصہ ہے۔ جور کے پھول کی دلکش رنگت کے برعکس اس کے پتے زہرآلود ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ اگر اونٹ جور کا پتا کھالے تو اس کی موت ہوجاتی ہے۔ اس لیے کسی شاعر نے کہا ہے کہ ’ کاش ملک الموت مست اونٹ ہوتا، اسے ندی میں لے جاکر جور چرایا جاتا ۔ ‘ ( بلوچی : ملکمیت مستیں لیڑھے بوتیں ، برتیں ماں کور ءَ جور بہ چارینتیں )۔ جور کی تلخی کی وجہ سے جور ایک بد دعا اور برے تاثر کے اظہار کے لیے بھی بولا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود بلوچ شاعر جور کے پھول کی خوبصورتی کی وجہ سے اسے نظرانداز نہ کرسکے ۔
بی این ایم کی بلوچ شہداء میموریل کونسل اس پھول کو شہیدوں کی علامت کے طور پر تجویز کرتی ہے ، ان تمام خاصیت کی بنیاد پر جو اس عام پائے جانے والے پھول کو سخت حالات میں مزاحمت کرنے اور زندہ رہنے کی علامت بناتے ہیں اور اس لیے بھی کہ یہ پھول بلوچستان کے ہر خطے میں پایا جاتا ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا بلوچستان کے لوگوں کا کم از کم ہمارے زمانے میں پھولوں سے محبت مثالی نہیں رہی ہے ، یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے کہ گلہ بانی اور کھیتی باڑی کرنا دو متضاد کام ہیں۔ مگر بلوچستان کے کئی خود رو پودے اور جڑی بوٹیاں آج بھی منتظر ہیں کہ انھیں گھروں کے آنگن اور نرسریوں میں اگایا جائے ، کئی ایسے مقامی پھول ہیں جو اپنے منفرد خوبصورتی سے لوگوں کو متوجہ کرسکتے ہیں۔ذرائع معاش میں تبدیلی اور شہر کی طرف آبادی کی منتقلی کے رجحان نے کئی ایسے پھولوں سے بلوچ کی نئی نسل کو نا آشنا کردیا ہے جن سے ہم سے پہلی نسل بخوبی واقف تھا۔
پھولوں سے کافی حد تک اس قومی بے رخی کے باوجود ، بلوچوں نے بھی قبروں پر بطور نشانی پھول کی علامت کا انتخاب کیا،جو پوری دنیا میں مرنے والوں کے احترام ، اس سے وابستگی اور دوبارہ جنم کی علامت ہے۔
شہدا کی علامت کا ماخذ :

ہم نے جس علامت کا انتخاب کیا ہے ، یہ علامت مشہور توتا چوکُنڈی قبرستان کی ایک قبر کے نقش سے اخذ کیا گیا ہے، جہاں پرتگالیوں ، مغلوں اور ساحل پر دیگر حملہ آوروں سے لڑنے والے کئی بہادر بلوچ جنگجو دفن ہیں۔ بلوچوں نے نسل در نسل اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے جانیں قربان کیں۔یہ قربانیوں کا تسلسل رہا ہے جس کی وجہ سے کسی زمانے میں گوادر اور دوسرے قصبات کے قبرستان آبادیوں سے بھی بڑی تھیں۔
یہ نشان محض کوئی’ کمپیوٹرائزڈ ویکٹر ڈیزائن‘ نہیں جن کا اب ہم عموما مونوگرام بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ، بلکہ یہ چوکنڈی کی ایک قبر کی نقاشی سے ماخوذ احتیاط سے بحال کردہ بصری تمثیل ہے۔ ہم نے پتھروں پر کنندہ اس نقش کو ایک جدید ویکٹر علامت میں تبدیل کرنے کے لیے کئی دن صرف کیے تاکہ اس کی اصلیت اور معنی کو برقرار رکھا جا سکے۔اس کے درجنوں ورژن بنائے اور اسے مختلف شکلوں میں ڈھال کر دیکھا تاکہ اس علامت کو کاغذوں ، پوسٹروں اور بیج کی شکل میں پرنٹ کرنے پر یہ واضح نظر آسکے۔
یہ تاریخی اور قومی علامت ہمیں اپنے ان آباؤ اجداد کے بہادرانہ کارناموں کی یاد دلاتی ہے جنھوں نے شہادت کے ذریعے اپنے وطن کا دفاع کیا۔ غلامی کے کئی ادوار میں، ان میں سے بہت سی مقامی علامتیں اجتماعی یادداشت سے دھندلا گئیں، جبکہ غیر ملکی قابضین اور ان کے مؤرخین نے بلوچ ورثے کو بلوچ پہچان دینے سے جان بوجھ کر گریز کیا— بلوچ قلعوں، قبرستانوں، اور یادگاروں کو بیرونی لوگوں سے جوڑ دیا۔ ہمارے اجتماعی حافظے کو بڑی آرام سے مٹا دیا گیا۔ ان مقامات کو عجیب و غریب غیر ملکی نام دے کر، انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ اس سرزمین کے حقیقی وارث بلوچ ہیں، جن کی تاریخ اس مٹی کے ہر ذرے میں پنہاں ہے۔ نفسیاتی غلامی ، اپنی زمین اور روایات سے بیگانگی جبر کے خلاف مزاحمت سے انکار کے طور ایک رضاکارانہ عمل ہے ، جو اقوام کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیتی ہے۔ یہ ہم بلوچ بخوبی جانتے ہیں ، ہماری کہاوت ہے: راج پہ مرگ گار نہ بیت ، راج پہ کرگ گار بیت ۔ ( قوم مرنے سے نہیں ، جھکنے سے مٹتی ہے۔)
بلوچ سنگتراش ، جنھوں نے اپنے فن سے بے جان پتھروں کو زبان بخشی :

پتھر کی نقاشی کا فن — پیچیدہ جیومیٹرک اور پھول دار کندہ کاری تخلیق کرنا — بلوچ معاشرے ہی میں پیدا ہوا تھا، نہ کہ کسی بیرونی اثر و رسوخ سے۔ آج بھی، بلوچ خواتین کشیدہ کاری کے ذریعے اس عظیم فنی ورثے کو محفوظ رکھی ہوئی ہیں۔
بلوچستان کی جغرافیہ ہمیشہ سے سخت رہی ہے جس کی وجہ سے بڑی اور مستقل آبادیاں پنپ نہ سکیں۔ بلوچ، جو چرواہے تھے، اپنے بڑے ریوڑ کو پالنے کے لیے وسیع چراگاہوں پر انحصار کرتے تھے اور اپنی ہی وسیع سرزمین کے اندر موسمی نقل مکانی کرتے تھے۔ ان موسمی سفروں کی کہانیاں بلوچ شاعری میں امر ہو چکی ہیں۔
*بنگو خاندان یا کلمتیوں کے حکمرانی کے (بلوچی: بنگو دودمان) کے دور میں، بلوچ سیاسی اور سفارتی طور پر مضبوط ہوئے ، انھوں نے نوآبادکاروں کی رسی کشی میں اس خطے میں ایک اہم مقام حاصل کرلیا۔مکران میں ان کی حکمرانی کا مرکز کیچ تھا۔ سلطنتِ عثمانیہ اور ایرانی بادشاہتوں نے انھیں ایک مضبوط قابل اعتماد اتحاد کے طور پر قبول کیا ۔افغان بھی بلوچ کو اپنے لیے محض ہمسایہ نہیں بلکہ محافظ دوست سمجھتے تھے۔ خطے کے فارسی شاعروں نے بلوچ کے بطور سرحدی محافظ کردار کو سراہا اور اس کی بہادری ، ایمانداری اور وفاداری کو شاعرانہ خراج تحسین پیش کیا ، ایرانی شاعر ادیب الملک فراھانی کے اشعار ہیں : ’ صلح کردم به مرزبان بلوچ ۔ حکمدار هرات را چکنم ‘ ( ترجمہ : میں نے بلوچ سرحدی محافظ سے صلح کرلیا ، اب ھرات کے حکمران کا کیا کرؤں ۔ )
بلوچوں کے اہرام (توتا چوکنڈی ) :

چوکنڈی کا قبرستان کراچی شہر کے مشرق میں ہائی وے پر، ملیر ندی کے قریب واقع ہے۔ یہ تاریخی قبرستان کراچی کے مرکز سے تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے چوکنڈی کی قبریں چودھویں (14ویں) سے اٹھارویں (18ویں) صدی عیسوی کے درمیانی ادوار کی ہیں۔یہی وہ دور ہے جب کلمتیوں نے ساحل بلوچ پر اپنی طاقت کا سکہ جمایا تھا۔
چوکنڈی بلوچی زبان کا لفظ ہے۔ ’ چو ‘ چار کا اختصار اور ’کُنڈ ‘ کونے کو کہتے ہیں۔ یہاں چوکُنڈ کا مطلب چار کونوں والے مستطیل یا مربع صورتیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس لفظ کے کوئی اور معنی نہیں بنتے۔ پتھروں کو تعمیرات کے لیے ایک مخصوص طرز میں تراشا جاتا تھا ، مستطیل یا مربع لیکن ان میں ایک فن کارانی تناسب ہوتا تھا۔ ان کی ضخامت اور یہاں تک کہ وزن کے یکساں ہونے کو بھی یقینی بنایا جاتا تھا، انہی پتھروں کو چوکنڈی کہتے تھے۔یہ پتھر تعمیرات کے لیے کافی مہنگے ہوتے تھے۔ ان پر نقش و نگار ایک مہارت طلب اور نفیس کام تھا۔ اس لیے یہ طرز تعمیر ہر عام شخص کی قبر کے لیے نہیں تھی۔ چوکنڈی کی قبریں اور پھول کا نشان شروع میں صرف جنگوں میں شہید ہونے والوں کے لیے مخصوص تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ امارت ، توقیر اور شان و شوکت کی علامت بن گئیں۔ دیکھتے دیکھتے ہر قبیلے نے اپنے مُردوں کے لیے ایسے ہی قبریں بنانی شروع کیں تاکہ اپنی بلند سماجی حیثیت کا اظہار کرسکیں۔دھیرے دھیرے قبر کا چوکنڈی ہونا عزت ، احترام اور مرتبے کی علامت بن گیا۔ چوکُنڈی کے مقام پر جام مرید بن حاجی کی قبر پر ’ صاحب چوکنڈی ‘ لکھا ہوا ہے۔ صاحب چوکنڈی سے مراد چوکنڈی قبر میں مدفون یا چوکنڈی قبر کے مالک۔
یہ خالص بلوچ طرز تعمیر ہے اس طرز تعمیر کے آثار بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ملتے ہیں گوکہ حکمرانوں کی عدم توجہی سے یہ عظیم ورثہ یا تو مٹ گیا یا مٹنے کے قریب ہے۔ گوادر میں تو اس پر تاحال کسی کالم نویس کی نظر گئی ہے اور نہ ہی کسی محقق نے ان کا ذکر کیا ہے مگر پسنی کی چوکنڈی قبریں میڈیا میں توجہ پانے کے باوجود محکمہ آثار قدیمہ کی توجہ نہ پاسکے ، یہ ایک ایک غلطی یا تغافل جاہلانہ نہیں بلکہ تغافل عارفانہ ہے ، یعنی جان بوجھ کر نظرانداز کرنا تاکہ بلوچ مزاحمت کی یہ شاندار تاریخ ہمیشہ کے لیے مٹ جائے ۔
مکران کے سنگ تراش کاریگر بھی خطے میں مشہور تھے ، جنھوں نے آگرہ میں ہندوستان کے مشہور تاج محل کی تعمیر میں بھی حصہ لیا۔آج بھی آگرہ میں رہنے والے کئی بلوچ خاندان فن تعمیر و سنگ تراشی سے وابستہ ہیں ۔وہ بلوچ جو اس فن میں یکتا تھے ، ان کو کوئی ضرورت نہ تھی کہ وہ باہر سے اپنی قبروں کی تعمیر کے لیے کاریگر بلاتے۔سینہ بہ سینہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بلوچ اپنے قابل لوگوں کی مرنے پر ان کا بیحد احترام کرتے تھے ، بالخصوص وہ لوگ جو بلوچ روایات ( کوڈ آف کنڈکٹس ) کے لیے اپنی جانیں دیتے تھے۔ بلوچ اپنی روایات کی سرحدوں کی بھی اسی طرح حفاظت کرتے تھے جس طرح وہ اپنے وطن کی سرحدات کے کرتے تھے ، دونوں کی خلاف ورزی انھیں سخت ناپسند تھی اور اس پر وہ مرنے مارنے پر اتر آتے تھے۔ کئی ایسے لوک کہانیاں ہیں کہ ایسے بہادر لوگوں کی قبریں اونٹنی کی دودھ سے تعمیر کروائی گئیں ، یعنی پانی کی جگہ خالص دودھ کا استعمال کیا گیا۔
کلمتیوں نے جب ساحل پر اپنے کنٹرول کو سندھو دریا تک بڑھایا اور ملیر میں اپنی آبادیوں کی بنیاد رکھی تو اس فن تعمیر کو بھی اپنے ساتھ بلوچستان سے سندھ لے کر گئے۔ کراچی کی چوکنڈی قبرستان کی بنیاد بھی کلمتیوں نے رکھی جو اسے آج بھی ’ توتا چوکنڈی ‘ کہتے ہیں ۔ بعد ازاں دیگر بلوچ قبائل نے بھی اس طرز تعمیر کو اپنی مُردوں کی قبروں کے لیے اپنایا۔کلمتی قبیلے سے جب حکمرانی دوسرے بلوچ قبیلوں کو منتقل ہوئی تو انھوں نے اس وراثت کو بھی اپنایا۔ بیشتر قبریں جنگوں کے دوران بنائی گئی تھیں ۔جام مرید بھی مغل بادشاہ شاہجان کے دور میں مغلوں سے نبرد آزما رہے اور انھیں بلوچ آبادیوں پر تسلط جمانے سے روکے رکھا۔
بلاشبہ تاریخ کی صفحات میں باقی رہ جانے والی چوکنڈی قبرستان کی یہ قبریں بلوچوں کی سب سے شاندار فن تعمیر کی گواہ ہیں ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں بلوچ سنگتراشوں کا فن اپنے عروج پر پہنچا۔ اس لیے میں ان قبروں کو ’ بلوچوں کے اہرام ‘ کہتا ہوں ، جہاں ہم آج بھی بے جان پتھروں پر کندہ بلوچوں کی شان و شوکت ، بہادری ، مزاحمت اور حکمرانی کے آثار دیکھ سکتے ہیں۔
اس علامت کا دیگر اقوام سے تعلق :

یہ ناقابل تردید حقیقت ہے ، جس سرزمین پر ہم رہتے ہیں، اور ہماری قومی شناخت کا احساس، دیگر اقوام کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں — زبان، ثقافت، لباس اور مشترکہ رسم و رواج کے ذریعے۔
بلوچ قوم اس لحاظ سے ایک منفرد مقام رکھتی ہے: ایک طرف، اس کے عظیم ہندوستان کے لوگوں سے گہرے تعلقات ہیں، اور دوسری طرف، یہ تاریخی اور ثقافتی طور پر مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا سے جڑی ہوئی ہے۔اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ایک مشترکہ وراثت کا امین ہونا اپنے آپ میں ایک قابل فخر بات ہے۔
اگر ہم غور کریں، تو ہم پاتے ہیں کہ فطرت اور انسانی تخلیق دونوں ہی کچھ دہرائی جانے والی بنیادی اشکال پر مبنی ہیں، جیسے:
- دائرے — سورج، چاند، سیارے، درخت کے تنے، آنکھیں، پہیے
 - لائنیں — پہاڑوں کی چوٹیاں، درختوں کی شاخیں، عمارتوں کا ڈھانچہ
 - مثلث — پہاڑوں کی چوٹیاں، پتوں کے کنارے، خیمے، چھتیں
 - جالی نما نمونے — مکڑی کا جالا، شہد کے چھتے، دریاؤں کے راستے
 
یہ جیومیٹرک اشکال کائنات کے فطری نظام کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان کوئی چیز بناتا ہے — خواہ وہ فن تعمیر کا ڈیزائن ہو، نقشہ ہو، یا کوئی فن پارہ — تو وہ غیر ارادی طور پر انہی بنیادی اشکال کو دہراتا ہے، کیونکہ فطرت خود انہی پر مبنی ہے۔
فریکٹل جیومیٹری (Fractal Geometry) بھی یہ بیان کرتی ہے کہ فطرت میں کچھ نمونے مختلف پیمانوں پر لامحدود طور پر دہرائے جاتے ہیں۔
کئی فلاسفر اور صوفی بھی اس خیال کے حامی تھے:
افلاطون کا ماننا تھا کہ مادی دنیا کی ہر چیز کامل، مثالی اشکال — ’’ نام نہاد افلاطونی اشکال ‘‘ — کی نقل ہے۔ ان کے مطابق، دائرہ، مثلث، اور مربع جیسی اشکال محض ریاضیاتی علامات نہیں، بلکہ کائناتی اصول ہیں۔ ہر شے کا وجود ان ’’ خالص اشکال ‘‘ کا عکس ہے۔
’’ جمال اور نظام فطرت کی اصل ساخت کے اندر پنہاں ہیں۔‘‘— افلاطون، طیمائیس
فیثاغورس کا خیال تھا کہ کائنات اعداد اور تناسب سے بنی ہے۔ ان کے لیے، تناسب اور ہم آہنگی تمام اشکال اور مظاہر کی بنیاد تھی — ایک ایسا خیال جس نے مقدس جیومیٹری کے تصور کو جنم دیا۔
سولہویں صدی میں، ماہرِ فلکیات جوہانس کیپلر نے مشاہدہ کیا کہ سیاروں کے مدار درست جیومیٹرک تناسب کی پیروی کرتے ہیں۔ انھوں نے لکھا، ’’ خدا نے دنیا کو جیومیٹری کے مطابق تخلیق کیا ‘‘ — ایک ایسی جیومیٹری جو اشکال کی تکرار سے عبارت ہے۔
جدید دور میں، بینوئٹ مینڈل بروٹ نے ثابت کیا کہ مظاہر فطرت — درخت، بادل، پہاڑ، دریا — سبھی میں دہرائے جانے والے نمونے شامل ہیں۔ یہ فریکٹل جیومیٹری کے نام سے جانا گیا، جو اوپر بیان کردہ خیال کی ایک سائنسی توسیع ہے۔
اسی طرح، صوفی فلسفہ میں بھی ’’ فطرت کا نمونہ ‘‘ یا ’’ ازلی ڈیزائن‘‘کا تصور ملتا ہے — کہ کائنات کا ہر ذرّہ ایک اصل آرکی ٹائپ (Archetype) کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی بصیرت سے ’’ منصور الحلاج ‘‘ کا مشہور نعرہ، ’’ انا الحق ‘‘ (میں حق / خدا ہوں)، اور ’’ وحدت الوجود ‘‘ کا عقیدہ سامنے آیا۔
اسی طرح “منڈالا” جو بنیادی طور پر سناتن دھرم اور بدھ مت سے جڑی ہوئی ہے، جہاں یہ روحانیت، مراقبے، اور کائناتی ہم آہنگی کی علامت کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔، ہندو ویدانت میں منڈالا کو اسی کائناتی نظام کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے لفظ ’’ منڈالا ‘‘ سنسکرت زبان کا ہے، جس کے معنی ہیں ’’ گول دائرہ ‘‘ یا ’’ مرکز کے گرد گھومنے والا نظام ‘‘۔ بدھ مت میں منڈالا مراقبے اور روحانی ارتقاء کا ذریعہ ہے۔ تبتی بدھ مت میں ریت سے بنائے گئے منڈالے کافی مشہور ہیں، جو عارضی ہونے اور نروان کی علامت ہیں۔ یہ بدھوں اور بودھی ستوا کی رہائش گاہوں کی علامتی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔
بلوچی زبان میں اس سے ملتا جلتا لفظ ’ منگل ‘ ہے جو دائرے کو کہتے ہیں ، اسی نسبت سے ہاتھ کی چوڑیوں کو ’’ منگلیک ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ دائرہ کائنات، روح، توازن، اور زندگی کے تسلسل کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ منڈالا کا تصور قدیم ہندوستان میں یوگ، تانترک عبادت اور مراقبے کے عمل سے جڑا ہوا تھا، جہاں اسے کائنات کے روحانی نقشے (Cosmic Diagram) کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
وقت کے ساتھ منڈالا ایک آرٹ فارم کے طور پر دنیا بھر میں پھیل گیا، جو روحانی توازن، ذہنی سکون اور خود آگاہی کی علامت بن گیا۔
منڈالا کوئی ایک مخصوص شکل نہیں ہے، بلکہ یہ ایک روحانی اور فنّی خاکہ (pattern) ہے جو عام طور پر مرکز (Center) سے شروع ہو کر دائروں، جیومیٹریائی شکلوں اور علامتوں کے ذریعے باہر کی سمت پھیلتا ہے۔
سب سے پہلے ایک نقطہ یا دائرہ بنایا جاتا ہے — یہ ’’ مرکزِ روح ‘‘ یا ’’ کائنات کا مرکز ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ مرکز کے گرد دائرے، چوکور، مثلث، پھول کی پنکھڑیاں یا جیومیٹریائی نمونے بنائے جاتے ہیں۔ ہر پرت ایک روحانی یا نفسیاتی سطح کی نمائندگی کرتی ہے۔منڈالا ہمیشہ متوازن (Symmetrical) ہوتا ہے، یعنی اس کے تمام پہلو ایک جیسے اور ہم آہنگ ہوتے ہیں، تاکہ کائناتی نظم اور روحانی توازن کو ظاہر کیا جا سکے۔
لہذا ، بلوچ شہدا کی علامت اور منڈالا کے درمیان واضح فرق ہے ، منڈالا کسی مخصوص شکل کا نہیں محض دائروں کے استعمال کی وجہ سے کوئی شکل منڈالا نہیں کہلاسکتی حالانکہ مساجد کے گنبدوں، محرابوں، اور موزائیک فن (tile work) میں مرکز سے پھیلتے ہوئے دائرے، ستارے اور کثیرالاضلاع نمونے بھی منڈالا جیسے ہیں۔
چنانچہ، ہم یہ دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں کہ کوئی خاص علامت، خیال، یا مادی شکل صرف ہماری ملکیت ہے؟ یہاں تک کہ مشہور بلوچی کشیدہ کاری یوکرین اور دنیا کے دیگر حصوں کی کشیدہ کاری سے بھی حیرت انگیز مشابہت رکھتی ہے۔
’’ جی ہاں — بلوچ قوم بھی کوئی خلائی مخلوق نہیں بلکہ اسی زمین پر دوسروں کے ساتھ مشترکہ ورثہ رکھتی ہے۔‘‘
میرا ماننا ہے کہ ہم اس ابدی دائرے پر صرف ایک چھوٹے نقطے کے طور پر موجود ہیں —مگر نہ تو دائرہ ہمارے بغیر وجود رکھ سکتا ہے، اور نہ ہی ہم دائرے کے بغیر۔
بلوچ شہداء کی علامت کی تشریح :

یہ علامت دو متحد المرکز اشکال پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر ایک گہرا علامتی معنی رکھتی ہے:
اندرونی تہہ
ایک 17 پھنکڑیوں والا کھلا ہوا پھول — زندگی، روح، اور تجدید (Rebirth) کی علامت ۔ جو شہداء کے کردار کی خوبصورتی اور ان کے لیے قومی احترام کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ پھول تین پرت یا لہروں پر مشتمل ہے ۔
مرکز : ایک گہرا سرخی مائل نکتہ جو ہماری قومی وحدت کو ظاہر کرتا ہے۔بلوچ مختلف زبان ، نسل اور علاقائی تقسیم کے باوجود ایک قوم ہے۔
مرکز کے گرد سرخی مائل دئراہ : اس بات کی تاکید یا اظہار کرتا ہے کہ ہماری بقا اپنی قومی وحدت کو برقرار رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے میں ہے۔
پھول کی پتیاں : شہدا کے کردار کی عظمت ، خوبصورتی اور قومی احترام کو ظاہر کرتے ہیں، قوم کی طرف سے شہداء کے لیے خراج تحسین کی علامت۔
17 کی تعداد : 17 عدد روحانی توازن، ایمان، اور تجدید کی علامت سمجھا جاتا ہے۔یہ عدد فرد کے لیے دنیا کے درست ادراک (فہم و شعور) میں خوش نصیبی کی نشانی ہے ، اس علامت میں شہادت کی موت کو خوش نصیبی سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
درمیان کی مکمل شبیہ کو گہرے سُرخی مائل رنگ (Maroon) میں پیش کیا گیا ہے، جو شہداء کے خون ، قربانی اور وطن کے درمیان ابدی رشتے کی نمائندگی کرتا ہے۔
بیرونی تہہ :
روشن چمکدار سورج کی علامت۔
سورج کی 28 شعاعیں — زندگی، تسلسل اور قربانی کی روشنی
28 ایک مکمل عدد ہے جو قمری چکر (چاند کے 28 دن) اور وقت کے گزرنے سے جڑا ہے۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ:
- روشنی ہمیشہ اندھیرے کے بعد آتی ہے۔
 - قربانی اور جدوجہد کا تسلسل کبھی ختم نہیں ہوتا۔
 - سورج کی ہر کرن شہید کی قربانی سے پھوٹتی روشنی ہے۔
 
یعنی:
“بلوچ شہداء کی قربانیاں سورج کی شعاعوں کی طرح ابدی روشنی بن کر قوم کے افق پر پھیلتی ہیں۔”
علمِ اعداد میں، عدد ۲۸ اُن افراد کی علامت ہے جو متوازن شخصیت کے حامل، ذمہ دار اور سماجی رجحان رکھتے ہیں۔28 کے عدد کو چار برابر حصے میں بانٹنے سے ہر ایک کے حصےمیں ’ 7 ‘ کا عدد آتا ہے ، یہ عدل و انصاف کے لیے شہدا کی قربانیوں کو ظاہر کرتا ہے۔اس بات کا اظہار کے شہدا کی قربانیاں بلاتفریق برابر احترام کے مستحق ہیں۔
اس علامت کو دائرے کی شکل دی گئی ہے ، جو حق کے لیے قربانی اور جہد مسلسل کی علامت ہے۔ جس طرح دائرے کا کوئی اختتام نہیں اس لیے حق کی فتح اور اس کے دفاع کے لیے جہد مسلسل نسل در نسل جاری رہتی ہے۔
رنگوں کی تفصیل :
بیرونی پرت کی رنگت : (سورج کے شعاعوں کے لیے) ، سنہری پیلی رنگت → #F6BD17
لکیریں ، اندرونی پرت اور مرکز کے پھول کی رنگت : گہرا سرخ → #640B0A
 